تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم،سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
حوزہ نیوز ایجنسی | چار سال قبل ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے غزہ پر ہونے والے اسرائیلی حملوں کے نتیجہ میں شہید ہونے والے ساٹھ فلسطینیوں کی شہادت کے المناک سانحہ اور القدس کی حیثیت کو امریکی اعلانیہ کے مطابق تبدیل کرنے اور امریکی سفارتخانہ کو تل ابیب سے القدس منتقل کرنے کے عمل پر احتجاج کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ تمام سفارتی تعلقات منقطع کر لئے تھے البتہ اس تمام عرصہ میں تجارتی تعلقات جاری رہے۔ ترکی وہ واحد مسلم ملک ہے کہ جس نے فلسطین پر قائم ہونے والے ناجائز صہیونی ریاست کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا اور ایک طویل مدتی سفارتی و تجارتی تعلقات سمیت سیکورٹی کے شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے آئے ہیں۔
حال ہی میں ترک صدر رجب طیب اردگان نے غاصب صہیونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا اعلان صہیونی وزیر اعظم لاپید کے ساتھ مشترکہ میٹنگ میں کیا ہے۔یہ اعلان ایسے موقع پر کیا گیا ہے کہ غزہ کے علاقہ میں پانچ اگست سے سات اگست تک صہیونیوں کے دہشت گردانہ حملوں میں پچاس سے زائد فلسطینی (بشمول معصوم بچے اور خواتین) شہید ہوئے ہیں اور سیکڑوں کی تعداد میں زخمی ہیں، اسی طرح انفراسٹرکچر کو بھی بری طرح تباہ و برباد کیا گیا ہے۔ لیکن دوسری جانب ترکی کے صدر اردگان نے اسرائیل کی غاصب ریاست کے ساتھ منقطع سفارتی تعلقات کو بحال کر لیا ہے۔
ترک صدر اردگان عوامی اجتماعوں میں فلسطینی عوام کی حمایت بھی کرتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ وہ غاصب اسرائیل کو بھی نہیں چھوڑ سکتے اور یہی وجہ ہے کہ ترکی میں انتخابات سے ایک سال قبل انہوں نے امریکہ سمیت مغربی دوستوں اور اسرائیل اور اس کے ہمنواؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا اعلان کر دیا ہے۔اس اعلان کے بعد اب ترکی کے سفیر غاصب اسرائیلی ریاست جائیں گے اور غاصب صہیونی ریاست کے سفیر ترکی میں موجود مختلف شہروں میں سفارت خانوں میں پہنچیں گے۔
ترک صدر طیب اردگان ایک طرف تو فلسطینیوں کو یقین دلوانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ فلسطین کاز کے ساتھ ہیں لیکن ان کا عمل اور اقدامات سب کے سب اس کے برعکس ہوتے ہیں۔فلسطین کے عوام باشعور ہیں اور اپنے دوستو ں کو اچھی طرح پہچانتے ہیں لہذا شاید فلسطینیوں کے لئے ترک صدر کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا اقدام سرپرائز نہیں تھا لیکن مسلم دنیا اور بالخصوص پاکستان میں ایک طویل مدت تک ٹی وی پر ترک ڈرامے دیکھنے والی نسل ترک صدر کو ارطغرل غازی سمجھ بیٹھی تھی، اب اس نسل کو ترک صدر کے اس اقدام پر یقینی طور پر جھٹکا لگا ہے۔
شعبہ سیاسیات و بین الاقوامی تعلقات کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے راقم یہ سمجھتا ہے کہ ترک صدر طیب اردگان اپنے اقتدار کے دور میں خود کو ایک کھلاڑی کے طور پر متعارف کروانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔جب جب ان کو فلسطین کاز کا سہارا لینا ہوتا ہے وہ فلسطین کی با ت کرتے ہیں مغرب کے سامنے اپنے آپ کو فلسطین کاز کا حمایتی قرار دینے کی کوشش کرتے ہوئے چاہتے ہیں کہ اہمیت میں اضافہ ہو۔جب ضرورت پڑتی ہے تو امریکہ ہی ان کا سب سے بڑا مسیحا بن جاتا ہے۔اسی طرح خطے کی حکومتوں بشمول ایران، عراق، شام اور دیگر کے ساتھ بھی ترک صدر کے تعلقات کبھی گرم جوشی پر مبنی ہوتے ہیں اور کبھی نوبت یہاں تک آن پہنچتی ہے کہ عراق میں شہری علاقوں پر ترک افواج سے بمباری کروانے کے احکامات بھی ترک صدر اردگان ہی دیتے ہیں اور پھر عراق میں مداخلت کر کے امریکی عزائم کو تکمیل تک پہنچانے کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ اسی طرح شام جو کہ فلسطین کا زکی ہمیشہ سے ایک فرنٹ لائن رہا ہے، شام کی حکومت کو ختم کرنے اور شام کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے سابق امریکی صدر نے خود اعترا ف کیا کہ سات ٹریلین ڈالر خرچ کئے لیکن اپنی مرضی کے نتائج حاصل نہ ہوئے اور شام کی حکومت باقی ہے۔اس شام کی حکومت کے خلاف بھی ترک صدر اردگان امریکی و اسرائیلی کیمپ میں کھڑے نظر آتے ہیں۔جس دن غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا اعلان کیا جاتا ہے اسی دن شام کو چند گھنٹے بعد ہی شام میں ترک افواج ایک حملہ میں شامی فوج کے بائیس افراد کو شہید کر دیتی ہیں۔
یہاں پر موازنہ کیجئے کہ شام کی افواج کے خلاف اسرائیل بھی حملے کر رہا ہے اور شامی فوجیوں کو قتل کرتا ہے اسی طرح ترکی نے بھی ایسا ہی اقدام اٹھاتے ہوئے بائیس شامی فوجیوں کو موت کی نیند سلا کر اسرائیل کو خوش کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا ہے۔کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ جس ترکی کو دنیا کے مسلمان ایک ماڈل کی حیثیت سے دیکھتے ہیں وہی ترکی خطے میں مسلمان ریاستوں اور خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل سے براہ راست نبرد آزما قوتوں کو کمزور کرنے کی کوشش میں مصروف عمل ہے۔
دنیا یہ بات بخوبی جانتی ہے کہ دنیا میں دو ہی ممالک ایسے ہیں جنہوں نے اسرائیل کو غاصب اور ناجائز قرار دیا ہے۔ ایک پاکستان ہے کہ جس کے بانی محترم قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو ناجائز قرار دیا تھا اور دوسرا ایران ہے کہ جس نے سنہ1979ء میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اسرائیل کو ناجائز قرار دیا۔ اب دیکھا جائے تو اسرائیل ان دونوں کا ہی دشمن ہے۔ ترکی کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان اور ایران کے خلاف ترک اسرائیل مشترکہ محاذ تیار ہے۔
سیاسی امور کے ماہرین بھی ترکی کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو فلسطین کاز کے لئے سنگین خطرہ قرار دے رہے ہیں لیکن ساتھ ساتھ ان کاکہنا ہے کہ دنیا میں جو بھی فلسطین کاز کی حامی ریاستیں موجود ہیں ترکی ان کے لئے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔جیسا کہ شام پر ترکی کا براہ راست حملہ، عراق میں شہریوں پر حملہ، یہ سب وہ معاملات ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ ترکی خطے میں اسرائیل کے مفادات کی چوکیداری کا کام انجام دینے پر مامور ہے۔ماہرین کاکہنا ہے کہ اسرائیل خطے میں ترکی کو اپنے لئے ایک ڈھال کے طور پر استعمال کر رہا ہے تا کہ خطے میں فلسطین کی حامی قوتوں بالخصوص ایران، فلسطینی مزاحمتی تحریکوں حماس، جہاد اسلامی، حزب اللہ اور شام کے خلاف ترکی کے ذریعہ اقدامات عمل میں لائے جائیں۔جہاں تک بات پاکستان کی ہے تو پاکستان کے عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنے محسن پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے بتائے ہوئے راستے یعنی فلسطین کاز کے ساتھ رہیں گے یا فلسطین کاز اور فلسطینیوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے والی ترک حکومت او ر ترک صدر اردگان کا ساتھ دیں گے۔ امید ہے کہ پاکستانی عوام کے دماغ سے ترکی کے ڈراموں کا بھوت جلد اتر جائے گا اور ترک حکومت کی اصل شکل واضح ہو جائے گی۔
ماہرین کی رائے یہ بھی ہے کہ ترکی کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ترکی دنیا کے دیگر مسلمان ممالک کے لئے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنانے کی راہ ہموار کرنے کے منصوبہ پر عمل پیرا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم دنیا کی حکومتیں کیا فیصلہ کریں گی؟
خلاصہ یہ ہے کہ ترکی ایک مسلمان ملک ہے اور دنیا کے عوام کے مابین ترک حکومت کی عزت اسی لئے تھی کہ ترک حکومت نے ماضی میں فلسطین کاز کی حمایت میں اقدام اٹھائے تھے لیکن اب رفتہ رفتہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ترک حکومت مسلسل امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لئے سرگرم عمل ہے جس کے باعث پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان ترک حکومت کی اہمیت اور عزت ختم ہو رہی ہے۔